گواہی

اے میرے احباب و جماعت کے ارکان!  اللہ ہم سب سے راضی ہو  
 ہم سب اپنے عقیدے پر گواہ کرتے ہیں اللہ کو ، اس کے فرشتوں کو اور تمام مومنین کو اور جو سنیں یا پڑھیں ان کو ، اپنے اس عقیدے پر کہ اللہ ایک ہے ، الوہیت میں اس کا کوئی ثانی نہیں ، وہ بیوی بچوں سے پاک ہے ، منزہ ہے اور سب کا مالک ہے ۔ اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ وہ حقیقی بادشاہ ہے ،اس کا کوئی وزیر نہیں ،اس کو کوئی تدبیر سکھانے والا نہیں ۔ وہ کسی موجد کا محتاج نہیں ، اللہ تعالیٰ کے علاوہ تمام چیزیں اس کی محتاج ہیں ۔ وہ جب چاہے اپنے عرش پر ( مستوی)جلوہ گر ہو سکتا ہے ۔ اس استوا سے اللہ کی جو بھی مراد ہو ہم اس پر ایمان رکھتے ہیں ۔ دنیا بھی اسی کی ہے او ر آخرت بھی اسی کی ہے ۔ عرش اور ماسوائے عرش اسی سے قائم ہے ۔ اول و آخر سب اسی کا ہے ۔زمانہ اس کو محدود نہیں کر سکتا ، مکان اس کو بلند نہیں کر سکتا ۔ وہ اس دم بھی تھا جب مکان نہ تھا ۔ وہ جیسا تھا ویسا ہی رہا اور  ویسا ہی رہے گا ۔
 مکان اور متمکن دونوں کو اس نے پیدافرمایا ، زمانے کو بھی اسی نے پیدا کیا ۔ وہ ایک ہے ، زندہ ہے ، اسے حفاظت ِمخلوق دشوار نہیں ، اس کی کوئی صفت ایسی نہیں ہے جو پہلے نہ تھی –
اللہ تعالیٰ اس سے اعلیٰ ہے کہ حوادث اس میں حلول کریں –
 ’’وہ قیم ہے ‘‘اسی پر سب کے قیام کا دارومدار ہے ، وہ کبھی نہیں سوتا وہ’’ قہار ‘‘ ہے ۔ اس کا کوئی مثل نہیں ۔ اس نے عرش پیدا کیا۔ اس نے کرسی پیدا کی ۔ پست زمین اور بلند آسمان سے ان کو وسیع تر بنایا ۔ اس نے ’’قلم ‘‘کو پیدا کیااور  روز اول سے قیامت تک جو کچھ ہونے والا ہے اپنے علم کے مطابق قلم سے لکھوایا ۔ 
اس نے بغیر کسی سابقہ نمونے کے عالم کو پیدا کیا ۔ مخلوقات کو پیدا کیا ۔ اس نے ارواح کو اجسام میں امین بنا کر اتارا  اور اجسام کو جس میں روح اتری ہے ، اپنا خلیفہ بنایا ۔ پھر آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے ۔ اس کو اپنی قدرت سے انسان کا مطیع فرما دیا ۔ سب کچھ اسی نے پیدا کیا ہے ۔ اس کو کسی کی حاجت نہیں ہے ۔
 لٰہذا وہی اول ہے ، وہی آخر ہے ، وہی ظاہر ہے ، وہی باطن ہے ، وہ ہر شے پر قادر ہے ، اس نے اپنے علم سے سب کا احاطہ کیا ہوا ہے ۔ وہ تمام مخلوقات اور اشیاء کے عدد سے واقف ہے ۔ 
وہ آنکھوں کی خیانت اور سینے میں چھپے ہوئے رازوں سے واقف ہے — وہ لطیف و خبیر ہے —وہ سب کو دیکھتا ہے—وہ سب کو سنتا ہے— وہ دل ہی دل میں کی گئی بات کو سن لیتا ہے۔۔۔ وہ سیاہ چیز کو اندھیرے میں اور پانی میں پانی کو دیکھ لیتا ہے۔
وہ اشیاء سے پہلے بھی ان کو جانتا تھا ۔ پھر اپنے علم کے موافق ان کو پیدا کیا اور اپنے علم کے موافق تمام اشیاء پرحکومت کرتا ہے ۔اور ان پر دوسروں کو حاکم بناتا ہے- وہ تمام کلیات کوجانتا ہے اس لیے کہ وہ تمام جزیات کا علم رکھتا ہے اور اس مسئلے پر تمام عقل سلیم اور  رائے صحیح رکھنے والوں کا اتفاق و اجماع ہے ۔
تمام چیزیں ارادہ الہی سے ہیں۔ کوئی اس کے ارادے کو نہیں روک سکتا۔۔۔کوئی اس کے حکم کو ٹال نہیں سکتا۔
 جس کو چاہتا ہے ملک اور حکومت عطا کرتا ہے اور جس سے چاہتا ہے ملک اور حکومت واپس لے لیتا ہے۔جس کو چاہتا ہے عزت دیتا ہے ۔جس کو چاہتا ہے ذلت دیتا ہے۔(سورہ آل عمران،آیت نمبر 26)
جو چاہتا ہے ہوتا ہے جو نہیں چاہتا نہیں ہوتا۔بغیر اللہ تعالی کے ارادے کے کوئی ارادہ نہیں کر سکتا۔بندہ کسی کام کا لاکھ  ارادے کرے۔ جب تک اللہ نہ چاہے وہ کام نہیں ہوگا۔
 عالم کو اللہ نےایجاد کیا لیکن اس کے لیے اس نے نہ فکر کی نہ علم سے تدبیر کیا۔ اور نہ اس پر تفکر اور تدبر کیا۔ وہ اس سے اعلیٰ اور ارفع ہے۔ حقیقی و بالذات ارادہ اللہ ہی کا ہے۔
اگر اس نے انعام عطا کیا تو یہ اس کا فضل ہے اور اگر اس نے کسی کو عذاب میں مبتلا کیا تو یہ اس کا عدل ہے۔ وہ فضل کے موقع پر عدل نہیں کرتا اور عدل کے موقع پر فضل نہیں کرتا۔
            نماز کے متعلق اس نے فرمایا کہ بظاہر یہ پانچ ہیں لیکن درحقیقت یہ پچاس ہیں۔ وہ فرماتا ہے کہ’’  میری بات بدل نہیں سکتی میں بندوں پر ذرہ برابر ظلم نہیں کرتا
 ہوں ‘‘۔(سورہ ق،آیت نمبر 29)
 ہم توحید الہی کی قائل اور معتقد ہیں اور ہمارا معبود وہ ہے جو سورہ اخلاص کی صفات کا حامل ہے۔ اس کی سلطنت عظیم ہے اور اس کے احسانات عمیم( لا محدود)۔ 
ہم پھرگواہ بناتے ہیں اللہ کو ،اس کے فرشتوں کواور اس کی تمام مخلوق کو کہ ہم حضرت محمد مصطفی خاتم النبیین ﷺ مختار و مجتبیٰ برگزیدہ خلائق و موجودات خاتم النبیینﷺ پر ایمان رکھتے ہیں اور یہ کہ اللہ تعالیٰ نے آپ خاتم النبیین ﷺ کو تمام لوگوں پر بشیر و نذیر بنا کر بھیجا ۔ 
آپ خاتم النبیین ﷺ ایک روشن شمع ہیں ۔ آپ خاتم النبیین ﷺ اللہ کے حکم سے اللہ تعالیٰ کی دعوت دیتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ خاتم النبیین ﷺ پر جو کچھ اتار ا، آپ خاتم النبیین ﷺ نے اس کی تبلیغ کی ۔ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی امانت کو آپ خاتم النبیین ﷺ نے ادا کیا ۔
 آپ خاتم النبیین ﷺ نے حجتہ الوداع آخری حج میں تمام حاضرین کے سامنے خطبہ دیا ۔ آپ خاتم النبیین ﷺنے نصیحت کی ، ڈرایا ، دھمکایا ، خوشخبری دی ، وعدہ وعید فرمایا۔ آپ خاتم النبیین ﷺ کی نصیحت کسی خاص کے لیے نہ تھی ۔ یہ سب بحکم واحد وصمد تھا ۔ پھر آپ خاتم النبیین ﷺ نے فرمایا”دیکھو کیا میں نے تبلیغ نہ کر دی ‘‘؟ لوگوں نے عرض کیا” یا رسول اللہ(خاتم النبیین ﷺ)! آپ (خاتم النبیین ﷺ) نے تبلیغ فرما دی اور سب کچھ لوگوں کو پہنچا دیا ـ ‘‘ ۔ آپ خاتم النبیین ﷺ نے فرمایا ” اے اللہ تو گواہ 
رہنا ـ ‘‘ ۔(صحیح بخاری)
ہم بھی ہر سننے اور پڑھنے والے کو گواہ کرتے ہیں کہ حضرت محمد خاتم النبیین ﷺ جو عقائد و احکام لائے ہیں ہم ان تمام پر ایمان لائے ، ہم مومن ہیں ، احکام نبوی خاتم النبیین ﷺ میں سے جن کو جان سکے اور سمجھ سکے اور جن کو نہ جان سکےہم سب پر ایمان لائے ہیں اور ہمیں ان میں نہ کسی قسم کا شک ہے نہ شبہ ۔
 ہم ایمان رکھتے ہیں کہ وقت مقرر پر موت حق ہے ۔ ہم ایمان رکھتے ہیں کہ قبر میں منکر نکیر کے سوال حق ہیں ۔ اجسام کا قبروں سے جی کر اٹھنا حق ہے ۔ اعمال ناموں کا اڑ اڑ کر ہاتھوں میں آجانا حق ہے ۔ بعض لوگوں کا جنت اور بعض کا دوزخ میں جانا حق ہے ۔ بروز قیامت بعض لوگوں پر غم نہ ہونا اور بعض کا کرب میں مبتلا ہونا حق ہے ۔
’’ارحم الرحمین ‘‘ کا سب کی شفاعتوں کے بعد بعض کو دوزخ سے نکالنا بھی حق ہے ۔ مومنین اور موحدین کا جنت میں دائم نعمتوں میں ابد تک رہنا بھی حق ہے اور یہ کہ دوزخیوں کا ابد تک دوزخ میں رہنا بھی حق ہے ۔ ہمارے پاس کتب آسمانی اور انبیاء کرام علیہ السلام سے جو کچھ پہنچا ہے وہ حق ہے۔
یہ ہماری شہادت ہے ۔ ہمارے نفس پر ۔ یہ ہماری امانت ہے جس کے پاس یہ امانت پہنچے اگر اس سے کوئی سوال کرے تو وہ اس شہادت کو ظاہر کر دے کہ ہم نے یہ شہادت دی تھی ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہمارے اس ایمان سے نفع بخشے اور اِس دار فانی سے رخصت کے بعد اُس دنیا میں بھی ہمیں اس ایمان سے فائدہ حاصل ہو -(آمین یا رب العالمین )