حضور پاک خاتم النبیینﷺنے اکتالیسویں سال کے پہلے دن اپنی نبوت کا اظہار فرمایااور اقرابِاسْمِہ ربکَ الذی خلق کی تعمیل میں حضور پاک خاتم النبیینﷺ نے گھر پہنچتے ہی تبلیغ شروع کر دی۔حضرت خدیجہ الکبرٰیٰؓ، حضرت علی مرتضیٰ ؓ، حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت زید بن حارثہ ؓ نے بلا تامل ایمان قبول کیا۔سننے کی دیر تھی ،ایمان لانے میں دیر نہیں لگی۔حضرت خدیجہ ؓ بیوی تھیں۔ حضرت علیؓ چچا زاد بھائی تھے۔حضرت ابوبکر صدیق ؓ بچپن کے دوست تھے۔حضرت زیدؓ بن حارث خادم تھے۔
چاروں پَل پَل کے حالات سے باخبر تھے۔جس کی زندگی مثل آئینہ صاف و شفاف سامنے گزری اور جسے چالیس سال سچ بولتے دیکھا ہو۔اُس کی بات پر یقین کیوں نہ آتا؟ اُس سے بدگمانی کیسی؟
نبوت کا ۱ تا ۳ سال:
حضرت خدیجہ ؓ،حضرت ابوبکرؓ، حضرت علیؓ، حضرت زیدؓ ایمان لائے۔اس سال صدیقِ اکبرؓ کی تبلیغ سے حضرت عثمانؓ، حضرت عبدالرحمٰنؓ، حضرت سعدؓ،حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیر ؓ ایمان لائے۔پھر حضرت اَرقمؓ ، حضرت بلالؓ،حضرت صہیبؓ اور حضرت سمیہؓ ایمان لائے۔پھر حضرت ابو عبیدہؓ، حضرت سعیدؓ بن زید اور حضرت عبداللہ بن مسعودؓ ایمان لائے۔حضور پاک خاتم النبیینﷺنے انہیں غیر اللہ کی عبادت سے منع فرمایا۔یہ لوگ پہاڑ کی گھاٹی میں جا کر عبادت کرتے تھے۔
دینی تعلیم کا پہلا مرکز:
کوہ صفا کے دامن میں حضرت اَرقم بن ارقم ؓ کے گھر کو دینی تعلیم اور تبلیغ ِ اسلام کے لیے منتخب کیا گیا۔ اور اعلانِ نبوت کے تین سال بعد تک یہاں خفیہ طور پر تبلیغ ہوتی رہی تین سال تک حضور پاک خاتم النبیینﷺنے اپنی رسالت کا خاص خاص لوگوں کے سوا کسی سے تذکرہ نہ کیا۔تین سال کے بعد جب حکم آیا۔
وَ اَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ ا ) سورۃ الشعرا ء ، آیت نمبر214)
ترجمہ: ’’ اپنے رشتہ داروں کو اللہ کا خوف دلائو‘‘۔
تو علی الا علان تبلیغ کی نوبت آئی۔حضور پاک خاتم النبیینﷺ نے چالیس ہاشمیوں کو کھانے کی دعوت پر بلایا اور کچھ کہنا چاہالیکن ابولہب نے بولنے نہ دیا۔دوسرے روز انہیں پھر کھانے کے لیے بلایا۔اور توحید الہٰی کی دعوت دی۔فرمایا ’تم میں کون کون میرا ساتھ دے گا‘؟حضرت علی ؓ اٹھے اور عرض کیا ’یا رسول اللہ خاتم النبیینﷺمیں آپ خاتم النبیینﷺ کا ساتھ دوں گا‘۔باقی سارا خاندان خاموش بیٹھا رہا۔
جذبہ مخالفت پیدا ہونے کی ابھی کوئی صورت نہیں تھی البتہ تھوڑے سے تمسخر کا اظہار کیا گیا۔تبلیغ کی رفتار بہت دھیمی تھی۔جس کے کان میں آواز پڑتی وہ ایک کان سے بات سنتا دوسرے سے اُڑا دیتا۔حضور خاتم النبیینﷺ بحکم ِ الہٰی بہت دھیمے چل رہے تھے۔گھر و احباب کے بعد حضور پاک خاتم النبیینﷺنے پورے مکہ والوں کو مخاطب فرمایا۔کوہ صفا پر جلوہ افروز ہوئےاور دعوت ِ اسلام دی پھر کیا تھا۔قریش کی طرف سے علی الاعلان مخالفت شروع ہو گئی۔
نبوت کا چوتھا سال:
حق گوئی کی پاداش میں آزمائشوں کا دور شروع ہوا۔آپ خاتم النبیینﷺ کو جادوگر ، کاہن ، شاعر، دیوانہ ، مجنوں کہا گیا۔ ابولہب کی بیوی جو آپ خاتم النبیینﷺ کی چچی تھی۔آپ خاتم النبیینﷺ کے راستوں میں کانٹے ڈالنے لگی اور اونٹ کی اوجھڑی عین سجدے کی حالت میں آپ خاتم النبیینﷺ کی کمر مبارک پر رکھی گئی۔گلے میں چادر ڈال کر گھسیٹا گیا۔حضرت سُمیہؓ کی ران میں نیزہ مار کر شہید کر دیا گیا۔حضرت زبیرؓ کو کھجور کی چٹائی میں لپیٹ کر کمرہ میں بند کر دیا گیا اور دھواں دیا گیا۔حضرت بلال حبشیؓ کو گرم ریت پر لٹایا گیا۔پیٹ پر پتھر رکھ دیئے گئے۔پیروں میں رسی ڈال کر گھسیٹا گیا۔
نبوت کا پانچواں سال :
رجب کے ماہ میں انفرادی طور پر حبشہ کی طرف ہجرت کا حکم ہوا۔اِس کی وجہ یہ تھی کہ جو لوگ ایمان لے آئے تھے ان کے لیے مکہ میںاعلانیہ طور پر آزادی کے ساتھ فرائض اسلام بجا لانے کی کوئی صورت نہ تھی۔ قریش کا ظلم انتہا کو پہنچ گیا تھا۔اور اس ہجرت کا بڑا فائدہ یہ تھا کہ جو لوگ ایمان لے آئے ہیں وہ جہاں تک جائیں گے اسلام کا پیغام پہنچے گا۔اور اس طرح اسلام کی شعاعیں خود بخود پھیلتی جائیں گی۔حضور پاک خاتم النبیینﷺکے حکم پر سب سے پہلے 11 مرد اور چار عورتوں نے ہجرت کی جن میں حضرت عثمان ؓ اور ان کی زوجہ رقیہؓ جو آپ خاتم النبیینﷺ کی صاحبزادی بھی تھیں۔پھر یہ تعداد 83تک پہنچ گئی۔