قرآن پاک میں سورۃ الانبیاء ،آیت نمبر 107 میںاللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
وما ارسلنک الا رحمتہ للعالمین
ترجمہ : ’’ اور ہم نے آپ ﷺ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں اپنے آپ کو رب لعالمین فرمایا اور نبی کریم خاتم النبیینﷺ کو رحمتہ للعالمین فرمایا۔ عالم (دنیا ) علما ء کے مطابق 8 ہزار عالم ہیں۔ صحیح تعداد صرف اللہ ہی جانتاہے۔ ہر جاندار کا عالم الگ ہے۔
ہر جاندار کی اپنی الگ ہی ایک دنیا ہے۔ اب دیکھئے نبی کریم خاتم النبیینﷺ رحمت ہیں تمام عالمین کے لیے اس کو ہر جاندا رسمجھتا تھا ، پتھروں نے آپ خاتم النبیینﷺکے کلمے پڑھے، جانوروں نے آپ خاتم النبیینﷺ کو سمجھا اور جانا ، حتیٰ کہ کھجور کے اس تنے نے جس کے ساتھ آپ خاتم النبیینﷺ ٹیک لگایا کرتے تھے مسجد نبوی میں منبر بننے کے بعد جب آپ خاتم النبیینﷺ منبر پر تشریف فرما ہوئے تو اس کھجور کے تنے نے سسکنا شروع کر دیا۔ نبی کریم خاتم النبیینﷺ نے آواز سنی اور یہ سمجھ لیا کہ یہ کس لیے رو رہا ہے؟ اور منبر سے نیچے اتر کر اس کو تسلی دی اس پر اپنا ہاتھ پھیرا تب اس نے رونا بند کیا۔
اگر ہم غور کریں تو عالم کا وجود جب ہی قائم ہو سکتا ہے جب وہاں پر رحمت باری تعالیٰ ہو۔ جس عالم پر اللہ تعالیٰ کی رحمت نہ ہوگی وہ برقرار ہی نہ رہ سکے گا۔آپ خاتم النبیینﷺ کو اللہ تعالیٰ نے رحمتہ للعالمین خاتم النبیینﷺ فرمایا ہے گویا یہ ہمیں سمجھا دیا گیا ہے کہ وہ رحمت ہیں جس سے ہماری دنیا کی بقاء ہے۔ اگر رحمت نہیں تو عالم نہیں۔ یہ دنیا اندھیروں سے بھر گئی تھی۔ ہر طرف کفر ہی کفر تھا ، عالم کو نئی ز ندگی آپ خاتم النبیینﷺ کے آنے کے بعد ملی اور جب تک اس دنیا میں آپ خاتم النبیینﷺ کا نام باقی رہے گا کوئی بھی اللہ اللہ کہنے والا باقی رہے گا۔ اللہ اللہ کہنے والا وہ ہے جو آپ خاتم النبیینﷺ کو اللہ کی رحمت سمجھے۔ آپ خاتم النبیینﷺ کو اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت سمجھے۔ ویسے تو اس دنیا میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں بے شمار نعمتیں عطا کی ہیں۔ اتنی نعمتیں کے ہم ان کا شمار نہیں کر سکتے۔
قرآن پاک میںسورۃ ابراہیم ،آیت نمبر 34 میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ
ترجمہ : ’’ اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنے لگو تو ان کا احاطہ نہیں کرسکتے ‘‘۔
بارش کے قطرے ، آسمان کے ستارے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو گننا محال ہے۔ لیکن اصولی طور پر یہ نعمتیں دو طرح کی ہیں۔ ا ن دوہی قسموں میں پھر کروڑوں اور عربوں قسمیں ہیں لیکن قسمیں دو ہی ہیں:
1۔ ظاہری نعمتیں 2۔ باطنی نعمتیں
1-ظاہری نعمتیں :
یہ وہ نعمتیں ہیں جن کو ہم آنکھ سے دیکھ سکتے ہیں۔ ہمارے بدن کو لگ سکتی ہیں۔
2- باطنی نعمتیں :
یہ وہ ہیں جو ہمیں ظاہر آنکھ سے نظر نہیں آتیں۔ بدن سے ان کی ٹکر نہیں لگتی لیکن ضمیر محسوس کرتا ہے۔
ظاہری نعمتوں میں سورج ، ہوا، پانی درخت، پھل، جانور ، غلہ ، اناج، اچھی صحت، تندرستی ایسی نعمتیں جن کو ہم محسوس کر سکتے ہیں۔ کھیتی باڑی ، کھانا پینا وغیرہ سب کچھ اس میں شامل ہے۔ باطنی نعمتوں کو صرف دل محسوس کرتا ہے آنکھوں سے نظر نہیں آتیں۔ جیسے علم ، معرفت خداوندی ، یہ علم دل میں بھر جاتا ہے یہ ایسی چیز نہیں کہ آدمی اس کو اٹھا کر جیب میں رکھ لے علم ظاہری چیز نہیں یہ بدن سے نہیں لگتا۔ یہ دل سے دل ہی میں رہتا ہے۔ آدمی جانتا ہے کہ یہ ایک نعمت ہے یعنی آنکھ سے نظر نہیں آتا پھر محبت خداوندی ہے یہ ایک بہت ہی عظیم نعمت ہے۔ اپنے پروردگار سے محبت نہ ہواور اس کے محبوب سے محبت نہ ہو ایمان ہی نصیب نہیںہوتا لیکن یہ محبت کوئی آنکھوں سے دیکھنے کی چیز نہیںہے۔ یہ اقرار ہے دل کا میں ایمان لایا اللہ پر، اس کے رسولوں پر اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، روز محشر پر اور یہ کہ اچھی اور بری تقدیر اللہ کی طرف سے ہے۔ اب یہ دل کا یقین ہے جسے کوئی نہیں دیکھ سکتا۔ یہ ایمان تو بس دل میں چھپا ہوتا ہے تو ایمان ایک نعمت ہے۔ محبت خداوندی ایک نعمت ہے ، نبی کریم خاتم النبیینﷺ سے محبت ایک عظیم نعمت ہے۔ اسی کو ایمان کی بنیاد کہا گیا ہے۔ کیونکہ ہم لاکھ کہیں لا الہ الا اللہ اگر اس کے ساتھ محمد رسول اللہ نہ کہیں تو اسلام ہی میں داخل نہیں