بخاری شریف میں حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خانہ کعبہ کی تعمیر پر مامور فرمایا اور حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کو اُن کے ساتھ شریک کیا ، تب تعمیرِ کعبہ کے وقت دونوں نے مل کر دُعا کی ’’ـاے ہمارے رَب ، ہماری مزدوری قبول فرمااور ہماری نسل میں وہ اُمت ِ مسلمہ جو خیرُ الا ُمم ہے پیدا فرما، اورہماری نسل میں سے اُس نبی آخر الزمان کو معبوث فرما ‘‘۔ (سورہ بقرہ ، آیت نمبر ۱۲۷،۱۲۸، ۱۲۹)
سو اولادِ ابراہیم علیہ السلام میں اللہ تعالیٰ نے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کا خانوادہ صرف اور صرف آخری نبی حضرت محمد خاتم النبیینﷺ کے لیے مخصوص کر دیا، اور حضرت اسحاق علیہ السلام جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دوسرے صاحبزادے تھے ۔ اُن کا خانوادہ باقی دوسرے انبیاء علیہ السلام کے لیے مخصوص فرما دیا گیا، یہ بنی اسرائیل کہلائے۔چنانچہ بعد ازاں تمام انبیاء علیہ السلام حضرت اسحاق علیہ السلام کی اولاد میں سے ہوئے اور حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی پوری نسل صرف اور صرف ایک اور سب سے آخری اور افضل نبی حضرت محمدمصطفی ٰ خاتم النبیینﷺکے لیے مخصوص کر دی گئی۔
(2) حافظ ابو سعید نیشا پوری ؒ نے ابو بکر بن عبداللہ بن ابی مریمؓ اور سعد بن ربعی بن عمرو انصاریؓ کے ذریعے ، حضرت کعب الاحبارؓ سے روایت کیا ہے جب حضور پاک خاتم النبیینﷺ کا نور مبارک حضرت عبد المطلب میں منتقل ہوا اوروہ جوان ہو گئے تو ایک دن نیند سے اُٹھے تو آنکھ میں سرما اور بالوںمیں تیل لگا ہوا تھااور حُسن و جمال میں اضافہ ہو چکا تھا، انہیں حیرت ہوئی ، اُن کے والد انہیں قریش کے کاہنوں کے پاس لے گئے اور سارا ماجرابیان کیا۔ انہوں نے سُن کرکہا کہ اللہ تعالیٰ نے اِس نوجوان کی شادی کا حُکم دیا ہے ، چنانچہ اُن کا پہلا نکاح قیلہ سے ہوا۔ پھر اُن کی وفات کے بعد آمنہؓ سے نکاح کیا اور اُن کے نصیب میں نورِ محمدی خاتم النبیینﷺآیا اور اُن کے بطن سے حضرت عبد اللہؓ متولد ہوئے۔
(3) کتب سیر و فضائل میں بکثر ت مروی ہے کہ جب ابراہہ بادشاہ کے اصحاب فیل نے کعبہ کو منہدم کرنے کے لیے مکہ معظمہ پر چڑھائی کی تو حضرت عبد المطلب چند آدمیوں کو لے کر پہاڑ پر چلے گئے۔ اُس وقت آپ کی پیشانی سے نور مبارک اس طرح چمکا کہ اُس کی شعاعیں کعبہ معظم پر پڑیں۔ حضرت عبد المطلب نے یہ دیکھ کر کہا”: اے اہلِ قریش! بے فکر ہو جائو ، اس طرح نور چمکنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم ہی غالب رہیں گے” ۔حضرت عبد المطلب کے اونٹ ابراہہ کے لشکر والے پکڑ کر لے گئے ، جب حضرت عبد المطلب اونٹوں کی واپسی کا مطالبہ کر نے گئے توابراہہ ، حضرت عبد المطلب کی نورانی شکل دیکھ کرآپ کی ہیبت اور عظمت سے ایسا مرعوب ہوا کہ فوراً تخت سے نیچے اُتر آیا اور آپ کے اونٹ واپس کر دیئے۔
(4) ابو نعیم، خرائطی اور ابن عسا کر نے بطریق عطاء ، حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے روایت کیا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عبد المطلب اپنے فرزند حضرت عبد اللہ کو لے کر ایک کاہنہ کے پاس سے گُزرے جو توریت ، انجیل اور کتب سابقہ کی عاملہ تھی، اُس کا نام شمعہ تھا۔ اُس نے حضرت عبد اللہ کے چہرے پر نورِ محمدی چمکتا ہوا دیکھا تو نکاح کی دعوت دی مگر آپ نے انکار کر دیا ۔ پھر مذکور ہے کہ آپ کا نکاح جب حضرت آمنہ ؓ سے ہو گیا اور نورِ محمدی اُن کے بطن میں منتقل ہو گیا تو پھر ایک روز حضرت عبد اللہ اِسی کاہنہ کے پاس سے گُزرے تو اُس نے آپ کی طرف توجہ نہ کی ۔ حضرت عبد اللہ نے اُس عورت سے پوچھا ‘کیا وجہ ہے؟ پہلے تو نکاح کی دعوت دی رہی تھی اور اب میری طرف دیکھتی بھی نہیں ہے‘؟ اُس نے جواب دیا کہ’جس نور کی خاطر مَیں آپ کی طرف متوجہ ہوئی تھی وہ ایک اور خوش نصیب لے گئی “۔اب مجھے آپ سے شادی کی ضرورت نہیں ، میری خواہش تھی کہ وہ نور میرے نصیب میں آ جاتا مگر اَب ایسا ممکن نہیں رہا ۔ وہ نور اَب آپ سے جُدا ہو چکا ہے‘ ـ”۔
(5) بہیقی اور ابو نعیم نے حضرت حسان بن ثابت ؓ سے نقل کیا ہے کہ مَیں آٹھ برس کا تھا اور دیکھی سُنی بات کو سمجھتا تھا۔ ایک دن صبح کے وقت ایک یہودی نے اچانک چلانا شروع کر دیا، بہت سے لوگ جمع ہو گئے، لوگوں نے اُس سے پوچھا تجھے کیا ہوا ؟ وہ کہنے لگا ، ’احمد خاتم النبیینﷺکا وہ ستارہ آج کی شب میں طلوع ہو گیا ہے‘۔ جس ساعت میںآپ خاتم النبیینﷺ نے پیدا ہونا تھا وہ ساعت آج کی شب میں تھی ۔ یہ واقعہ مدینہ منورہ کا ہے جبکہ ولادت مکہ معظمہ میں ہوئی تھی، مگر یہودی شہر مدینہ میں (جِس کا نام یثرب تھا)آباد ہو گئے تھے ، اُن کی کتابوں میں مذکور تھا کہ آخر ی نبی مدینہ منورہ ہی کو اپنا مسکن بنائیں گے ، ان یہودیوں کو حضور پاک خاتم النبیینﷺ کی آمد کا بڑی شدت سے انتظار تھاکیونکہ انہیں اُمید تھی کہ حضور پاک خاتم النبیینﷺ کی ولادت بھی مدینہ میں ہو گی اور یہ کہ وہ بنی اسرائیل ہی میں آئیں گے۔ یہ بات تو اُن کے گمان میں بھی نہیں تھی کہ یہ آخری نبی خاتم النبیینﷺ ، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دوسرے بیٹے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی پشت سے آ جائیں گے کیونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعد اُن کے بیٹے حضرت اسحاق علیہ السلام کی پشت سے ساڑھے چار ہزار پیغمبر آ چکے تھے جو تمام بنی اسرائیل
کہلائے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے حضرت اسحاق علیہ السلام تھے اور حضرت اسحاق ؑ کے بیٹے حضرت یعقوب ؑتھے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کا لقب اسرائیل تھااور اُن کی تمام اولاد بنی اسرائیل کہلائی۔ یہودی یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ یہ آخری نبی بنی اسرائیل کی بجائے بنی اسمٰعیل کی پشت سے آئیں گے۔
(6) حضرت عائشہ صدیقہؓ سے مروی ہے کہ ایک یہودی مکہ میں کسی کام سے آیا ہوا تھا ۔ سو جِس شب مکہ مکرمہ میں حضور پاک خاتم النبیینﷺ کی ولادت باسعادت ہوئی ، اُس یہودی نے کہا “اے گروہ قریش ، ’کیا تم میں آج کی شب کوئی بچہ پیدا ہو ا ہے‘؟ اہلِ قریش نے کہا کہ ہمیںتو معلوم نہیں ہے۔ اُس نے کہا کہ ’’معلوم کرو کیونکہ آج کی شب اِس اُمت کا نبی پیدا ہونے والا تھا۔ دیکھو اُس کے دونوں شانوں کے درمیان ایک نشانی ” مہرِ نبوت” ہو گی، وہ آج رات پیدا ہو چکا ہے‘‘۔
چنانچہ قریشِ مکہ نے اُس کے کہنے پر تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ عبد اللہ ابنِ ُمطلب کے گھر لڑکا پیدا ہوا ہے۔ وہ یہودی آپ خاتم النبیینﷺ کی والدہ کے پاس آیا اور بچے کو دکھلانے کو کہا۔ حضرت بی بی آمنہؓ نے آپ خاتم النبیینﷺ کو یہودی کو دکھا دیا ۔ اُس نے آپ خاتم النبیینﷺ کے دونوں کندھوں کے درمیان ـ” مہرِ نبوت ” کو دیکھا تو بے ہوش ہو کر گِر پڑا اور بے اختیار اُس کے منہ سے نکلا ’’بنی اسرائیل سے نبوت ختم ہو گئی ہے‘‘۔ پھر یہودی نے مکہ والوں کو مخاطب کر کے کہا’ ’ اے گروہ قریش سُن لو، یہ تم پر ایسا غلبہ حاصل کریں گے کہ مشرق و مغرب سے ان کی خبریں شائع ہوں گی‘‘۔
(7) بِہیقی ، ابو نعیم، خرائطی اور ابن عساکر روایت کرتے ہیں کہ’’ آپ خاتم النبیینﷺ کی ولادت کے وقت ظہور پذیر ہونے والے واقعات کے متعلق ایک یہ بھی ہے کہ کسریٰ کے محل میں زلزلہ آ گیا تھا اور محل کے چودہ کنگرے ٹوٹ کر گِر گئے تھے۔ بحیرہ طبریہ دفعتاً خشک ہو گیا تھا اور فارس کا آتش کدہ جو ایک ہزار برس سے جل رہا تھا اچانک بجھ گیا تھاحالانکہ اُس کی آگ کبھی بجھتی ہی نہیں تھی‘‘۔ روایات میں منقول ہے کہ اُس وقت حضرت عبدالمطلب خانہ کعبہ کا طواف کر رہے تھے ، انہوں نے دیکھا کہ سار ا مطاف اچانک روشن ہو گیا اور چند بُت منہ کے بل زمین پر گِر پڑے۔